کاروبار
یہ کاروبار محبت ہے تم نہ سمجھوگے
ہوا ہے مجھ کو بہت فائدہ خسارے میں
سردار جس سے سب متعلق ہے کاروبار
سچ بولنا ہے اس کے تئیں سخت ننگ و عار
میر تقی میر
سبھی یوں تو دنیا کے ہیں کاروبار
ولے حاصل عمر ہے وصل یار
میر حسن
نہ پوچھ کچھ سروسامان کاروبار اسدؔ
جنوں معاملہ بیدل فقیر مسکیں ہے
مرزا غالب
ابليس کي مجلس شوري
کاروبار شہرياري کي حقيقت اور ہے
يہ وجود مير و سلطاں پر نہيں ہے منحصر
علامہ اقبال
لہو اور تھوکنا اس کا، ہے کاروبار بھی میرا
یہی ہے ساکھ بھی میری، یہی معیار بھی میرا
وہ بڑی اُلجھن میں تھے۔
عادل پر توجہ دیتےتو کاروبار بدنظمی کا شکار ہوتا ۔
’’ کیا کاروبار تھا؟ ‘‘
’’ جو رہا ، وہ ہے ‘‘۔
حريم تيرا ، خودي غير کي ! معاذاللہ
دوبارہ زندہ نہ کر کاروبار لات و منات
کیا حال پوچھتے ہو مرے کاروبار کا
آئینے بیچتا ہوں میں اندھوں کے شہر میں
ن۔م
آئینے بیچتا ہوں میں اندھوں کے شہر میں
Social Plugin